انڈیامیںکچھ لوگ ملت کے مفاد میں ایک طرح سے دفع شر کے لیے مصلحتاً مسلم مخالفت کا ایجنڈا رکھنے والی سیاسی جماعتوں میں شامل ہوجاتے ہیں‘ مگر وہ تو فکری اور مزاجی لحاظ سے بھی بی جے پی کے رکن تھے اور بی جے پی کی حکومت میں کیبنٹ منتری تھے‘ ایک غیرمسلم خاتون سے انہوں نے شادی کی تھی جس نے اس گھر میں مندر بنالیا تھا اور بچوں کے نام بھی اپنے مذہب کے لحاظ سے رکھے تھے ایک بار پرانی دہلی کے کچھ مسلمان کسی ملی کام کے سلسلہ میں ان کے گھر پہنچے تو انہوں نے بڑی بے رحمی سے کہا‘ شاید آپ کو غلط فہمی ہوگئی ہے آپ مجھے مسلمان سمجھ کر میرے پاس آگئے ہیں۔
انتقال سے تین سال قبل انہیں فالج کا عارضہ ہوگیا وہ بالکل معذور مفلوج ہوکر بستر پر آرہے‘ اس تکلیف میں ان کی بے چینی اور کرب حد درجہ قابل ترس تھا‘ سرکاری قسم کے مولوی اور حافظ جو کسی کی سمدھی یا کسی سیاسی لیڈر کی ارتھی پر جاکر قرآن مجید پڑھنے پہنچ جاتے ہیں ان میں سے ایک قاری صاحب ان کے گھر پہنچے اور ان کے گھر والوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لالچ میں قرآن مجید کی تلاوت شروع کردی‘ قرآن تو قیامت تک اللہ کی باعظمت کلام اور نبی آخر الزمانﷺ کا زندہ و جاوید معجزہ ہے‘ ایسی غلط نیت کے ساتھ تلاوت کرنے کے باوجود بھی ان کو اس سخت تکلیف اور بے چینی میں راحت اور سکون محسوس ہوا‘ مطلب کیلئے آدمی سب کچھ کرتا ہے دین اور ایمان سے دوری کے باوجود بے چینی اور تکلیف سے نجات کیلئے وہ قاری صاحب کو بلاتے اور قرآن مجید سنتے‘ جب تک تلاوت ہوتی رہتی سکون رہتا اور جب بند ہوجاتی تو بے چینی بڑھ جاتی‘ قاری صاحب کب تک تلاوت کرتے‘ انہوں نے اپنی جان بچانے کیلئے مشورہ دیا کہ ٹیپ ریکارڈ سے حرمین کے ائمہ کا قرآن مجید سن لیا کریں‘ اس سے اور زیادہ سکون ہوگا اس طرح وہ ہروقت قرآن مجید سننے لگے‘ جب وہ سوجاتے تو کوئی ٹیپ ریکارڈ بند کردیتا‘ آنکھ کھلتی تو وہ اسے دوبارہ چالو کرلیتے
کبھی کبھی وہ قرآن مجید سن کر زارو قطار رونے لگے‘ انتقال سے ایک گھنٹہ پہلے ایک صاحب ان کی عیادت کو آئے اور کسی سیاسی مسئلہ پر بات چیت کرنے لگے تو انہوں نے بڑے درد سے روکا اور کہا میرا وقت قریب ہے‘ میں احکم الحاکمین کا کلام سن رہا ہوں آپ کہاں مجھ سے اس گندی دنیا کی باتیں کررہے ہیں‘ مجھے قرآن مجید سنتے ہوئے مرنے دو‘ سورۂ یٰسین کی تلاوت سنتے سنتے ان کا انتقال ہوگیا اور قبرستان مہندیان میں خانوادہ ولی اللہ کے بزرگوں کے جوار میں وہ دفن ہوئے۔ایسے انسان کا حسن خاتمہ اس حقیر کو حیرت میں ڈالتا تھا کہ حسن خاتمہ کے اس رحمت بھرے فیصلہ کا بہانہ کیا ہوا؟ ان کے چچازاد بھائی سے ایک بار ملاقات ہوئی‘ انہوں نے بتایا کہ کافی زمانہ پہلے وہ اپنی والدہ کے ساتھ ہمشیرہ کی شادی کا جہیز خریدنے گئے‘ نکاح کیلئے جوڑا خریدا‘ زری کا کپڑا جو پانچ سو روپے گز تھا وہ بھی کپڑے خریدے‘ والدہ نے کہا بیٹا: قرآن مجید کے جزدان کا کپڑا بھی چاہیے‘ لالہ جی نے بیس روپے میٹر کا کپڑا جو جزدان کیلئے مناسب ہوسکتا تھا نکال کردیا‘ انہوں نے بیس روپے کا نام سنتے ہی بڑے طیش میں اس تھان کو پھینک کر مارا اور غصہ میں کہا کہ میری بہن تو پانچ سو روپے گز والا کپڑا پہنے گی اور اللہ کے کلام کیلئے بیس روپے کا کپڑا۔ آپ کی دکان میں جو سب سے مہنگا کپڑا ہو لا کردو‘ لالہ نے سات سو روپے میٹر کا ایک کپڑا دکھایا وہ راضی ہوگئے‘ والدہ نے کہا کہ بیٹا جب یہ جزدان بنا کر جہیز میں دیں گے تو انہوں نے چار میٹر کپڑا جزدان کیلئے لے لیا۔یہ واقعہ سن کر سمجھ میں آیا کہ ایک دین سےدور بلکہ دین کے مخالف کیلئے قرآن مجید کو ایسی عقیدت کے ساتھ سنتے ہوئے خاتمہ کا فیصلہ کیوں ہوا؟ عظمت اور عقیدت کے ساتھ یہ کہہ کر میری بہن تو پانچ سو روپے میٹر کا کپڑا پہنے اور اللہ کے کلام کا جزدان بیس روپے میں بنے۔ غصہ سے تھان کو پھینکنے کی گھڑی میں اللہ کی طرف سے ان کی قبولیت اور حسن خاتمہ کا فیصلہ لکھا گیا واقعی اللہ کو اپنے کلام سے ایسا ہی تعلق ہے کہ حاملین قرآن مجید یہاں تک کہ معمولی خدام قرآن کے ساتھ ادنیٰ سا تعلق‘ خدمت‘ محبت‘ ادب اور عقیدت کا جذبہ رکھنے والا آج تک کبھی محروم نہیں‘ بلکہ ضرور اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور عطا کے فیصلے ہوئے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں